اسلام آباد: وفاقی حکومت نے بدھ کو سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ پچھلے ریکوڈک منصوبے میں متعدد غلطیاں تھیں جنہیں نئے منصوبے میں درست کر دیا گیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس جمال خان مندوکل پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے نئے ریکوڈک پراجیکٹ سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال بلوچستان اسمبلی کو ریکوڈک کے نئے منصوبے پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ بریفنگ کے بعد بلوچستان اسمبلی نے رواں سال جون میں رولز میں ترامیم کی تھیں۔ لاء آفیسر نے بتایا کہ پرانے پراجیکٹ میں بے شمار خرابیاں تھیں جنہیں دور کر کے اب نئے پراجیکٹ کو قابل عمل بنایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ معدنیات کی تلاش کا ٹھیکہ صرف اس کمپنی کو دیا جاتا ہے جس کے پاس مطلوبہ لائسنس ہو۔ اے اے جی نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے ریکوڈک کے لیے پچھلے معاہدے کو غیر قانونی قرار دیا تھا کیونکہ منصوبے کی کوئی مناسب فزیبلٹی رپورٹ تیار نہیں کی گئی۔
اسی طرح لاء آفیسر نے کہا کہ معدنیات کی تلاش کا ٹھیکہ متعلقہ کمپنی کی جانب سے بند کرنے کے بعد منسوخ کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بیرک گولڈ کا پچھلا لائسنس ختم ہو چکا ہے جس کی وجہ سے اسے نیا لائسنس دیا جائے گا۔
لاء آفیسر کا کہنا تھا کہ بیرک گولڈ کے لائسنس کی میعاد ختم ہونے کے باوجود عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی وجہ سے کسی بھی کمپنی نے پاکستان سے کسی معاہدے کے لیے رابطہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ بیرک گولڈ کے علاوہ دنیا بھر میں ایک درجن کمپنیاں معدنیات کی تلاش میں مصروف ہیں۔
لاء آفیسر نے کہا کہ عدالت نے کہا تھا کہ شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے منصوبوں کے آغاز کے لیے منصفانہ بولیاں لگائی جائیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ عدالتی فیصلہ یہ بتانے میں ناکام رہا ہے کہ جب تک بولیاں نہیں لگائی جاتیں پروجیکٹ شفاف نہیں ہوسکتے۔
ایک موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ چین ایسے منصوبوں میں حصہ نہیں لیتا، جو مسابقتی بولی کے عمل کے ذریعے شروع کیے جاتے ہیں۔ دریں اثنا عدالت نے کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا تھا۔ گزشتہ ماہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ نے قانونی اور مفاد عامہ کے معاملات پر اس کی رائے لینے کے لیے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دی تھی۔